پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان متعدد تجاویز پر اختلاف برقرار ہے۔
وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق سابق فاٹا کے علاقوں کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے سابق فاٹا کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق فاٹا کی ترقی کے لیے ایک سال کی ٹیکس چھوٹ ضروری ہے، پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزارتِ خزانہ کا مؤقف ہے کہ سابق فاٹا کو درآمدی مشینری اور انکم ٹیکس پر چھوٹ دینا ضروری ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف نے ایکسپورٹرز پر انکم ٹیکس بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، ایکسپورٹرز پر عائد انکم ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے گی، اس وقت ایکسپورٹرز پر انکم ٹیکس کی شرح ایک فیصد عائد ہے، ایکسپورٹرز سے اخراجات و آمدنی کے مطابق ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس ریٹ پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے جبکہ زراعت اور ہیلتھ سیکٹر پر 18 فیصد سیلز ٹیکس پر بھی عدم اتفاق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے 1 لاکھ روپے ماہانہ کے پینشنز پر ٹیکس لگانے پر بھی آمادگی کا اظہار کر دیا گیا ہے جبکہ ریئل اسٹیٹ کے شعبے پر ٹیکس لگانے پر پیش رفت جاری ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے اگلے قرض پروگرام کی شرائط کو بجٹ کا حصہ بنا کر پارلیمنٹ سے منظوری کی شرط عائد کر رکھی ہے اور آئی ایم ایف اپنے مطالبات میں کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔