اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں ملزمان کی حالت زار پر جواب طلب کرتے ہوئے حکومت کو شکایات کا ازالہ کرنے کا حکم دے دیا۔
7 رکنی لارجر بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل غیرقانونی قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی۔ وکیل فیصل صدیقی نے کیس کی سماعت کی براہ راست نشر کرنے کی درخواست واپس لے لی۔
پی ٹی آئی وکلا نے بتایا کہ زیرحراست ملزمان کو سویلین حراست میں دیا جائے، گرفتار افراد کو بہت برے حالات میں رکھا گیا ہے، ملاقات کرنیوالوں نے بتایا کہ ان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔
جسٹس جمال خان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم نے آپ سے رہا کیے گئے افراد کی تفصیلات مانگی تھیں، جیسا یہ بیان کررہے ہیں ایسا ہے تو پھر یہ مناسب نہیں، انسانیت سب سے بڑی چیز ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیرقانونی قرار دے دیا
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں چیک کرلیتا ہوں، ملزمان سے فیملی ملاقاتوں کا معاملہ حل ہوچکا تھا حیرت ہے کہ ملاقاتیں نہیں ہورہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اس بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
حفیظ اللہ نیازی نے آئین پاکستان ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے درخواست کی کہ میرا بیٹا گیارہ ماہ سے جسمانی ریمانڈ پر ہے،بتائیں آئین میں یہ کہاں لکھا ہے؟ 85 لوگوں کا معاملہ ہے، ایک قول ہے کہ جنگ کے میدانوں میں یا عدل کے ایوانوں میں سب سے زیادہ ناانصافی ہوتی ہے۔
کیس میں فریق بننے کی درخواست پر جسٹس شاہد وحید نے پوچھا کہ صوبائی حکومتیں جب متاثرہ فریق ہی نہیں تو انہیں کیسے سنا جاسکتا ہے، کیا اپیل دائر کرنے کی کابینہ سے منظوری لی گئی؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری نظرمیں کابینہ کی منظوری نہیں چاہئے، ضروری نہیں کہ ہر کیس میں وفاق کابینہ سے منظوری لے کر اپیل دائر کرے، اگر آئین و قانون میں کابینہ کی منظوری چاہئے تو پھر منظوری ہونی چاہئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میرے نزدیک کوئی حرج نہیں بار ایسوسی ایشن کو فریق بنا لیتے ہیں۔
لارجر بنچ نے 5 ججز کی اکثریت سے لاہور ہائیکورٹ بار کو فریق بنانے کی اجازت دیدی جبکہ 2ججز نے مخالفت کی۔
عدالت نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی فریق بننے کی استدعا منظور کی جاتی ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: حکومت اور وزارت دفاع نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے کا فیصلہ چیلنج کردیا
سپریم کورٹ نے زیر حراست افراد کی حالت زار کے بارے میں اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ فریقین نے بتایا کہ ملزمان سے فیملی کی ملاقات نہیں ہو رہی، اٹارنی جنرل ان شکایات کا ازالہ کریں۔
عدالت نے فوجی عدالتوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف خیبر پختونخوا حکومت کی اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹادی۔
شہدا فاؤنڈیشن کے وکیل نے کیس میں فریق بننے کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ شہدا فاؤنڈیشن بلوچستان میں خیراتی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میں کل ریکارڈ پڑھ رہا تھا، ریکارڈ میں لکھا ہوا تھا جناح ہاؤس کو آگ لگا دی گئی، یہ تو بعد میں پوچھیں گے قائداعظم صاحب جناح ہاؤس میں کتنا عرصہ قیام پذیر رہے، یہ بتائیں زیادت میں قائداعظم کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا، شہدا فاؤنڈیشن نے کتنی درخواستیں دائر کیں، عمر کا آخری حصہ تو جناح صاحب نے زیارت میں گزارا، زیارت میں جب حملہ ہوا وہاں کوئی سیکیورٹی نہیں تھی، وہاں آگ لگائی گئی، اس وقت شہدا فاؤنڈیشن کہاں تھی، وکلاء پر حملہ ہوا کیا شہدا فاؤنڈیشن نے رجوع کیا، مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ملٹری کورٹس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے والے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے کہا کہ آپ کوئی متوازی عدلیہ چاہتے ہیں؟ دو سال چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اور دس سال بلوچستان ہائی کورٹ کا جج رہا، کیا آپکو اپنی عدلیہ پر ہی اعتماد نہیں، آپ کیوں ایک متوازی عدالتی نظام چاہتے ہیں۔