• Sat. Nov 23rd, 2024

Watan Radio

Radio Watan Fm 90.8

توانائی سیکٹرکے قرضوں کا بوجھ بجلی صارفین سے لیا جا رہا ہے: وزیر توانائی

Jul 19, 2024

وفاقی وزیر برائے توانائی اویس احمد خان لغاری کا کہنا ہے توانائی سیکٹرکے قرضوں کا بوجھ بجلی صارفین سے لیا جا رہا ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا بجلی کی پیداواری قیمت 8 سے 10 روپے فی یونٹ ہے جبکہ بجلی کے ترسیلی نظام کے چارجز فی یونٹ ڈیڑھ سے 2 روپے ہیں، ڈسکوز کے اخراجات فی یونٹ 5 روپے پڑتے ہیں۔

اویس لغاری کا کہنا تھا سب سے بڑا خرچہ 18 روپے فی یونٹ کیپیسٹی چارجز کا ہے، اگر ان پلانٹس کو چلائیں گے تو وہ آپ کو تیل کا خرچہ لگا کر آپ سے پیسے لیں گے، اگر پلانٹس کو نہیں چلائیں گے تو بھی وہ ان پلانٹس کی مد میں اپنا سرمایہ لگانے اور منافع کے پیسے آپ سے لیں گے۔

وفاقی وزیر برائے توانائی کا کہنا تھا ساہیوال کول پلانٹ کے 2015 میں کیپیسٹی چارجز 3 روپے فی یونٹ تھے، ڈالرکی قیمت بڑھنے اور شرح سود 22 فیصد تک آنے کی وجہ سے کیپیسٹی چارجز بڑھ گئے، ڈالر کی قیمت اور شرح سود بڑھنے سے ساہیوال کول پلانٹ کے کیپیسٹی چارجز 11.45 روپے فی یونٹ ہو گئے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت توانائی سیکٹرکے قرضوں کا بوجھ بجلی صارفین سے لیا جا رہا ہے، بجلی کے ریٹ بڑھنے سے بجلی کے استعمال میں کمی آئی ہے، 35 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت ہے اس میں ٹیکسز شامل نہیں ہیں۔
وزیر توانائی نے کہا کہ جنوری میں بجلی کی قیمت میں 3 سے 5 فیصد کمی آنا شروع ہو جائے گی، بند پلانٹس پر ساڑھے 7 ارب روپےکی تنخواہیں دی جا رہی ہیں، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا سالانہ خسارہ 550 سے 600 ارب روپے ہے، اگلے دو سال سے تین سال میں ٹرائبل ایریا اور بلوچستان کے علاوہ دیگر تمام ڈسکوز کو نجی سیکٹر کو دیں گے،

اویس لغاری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر سال مہنگائی اور شرح سود کی وجہ سے بجلی کے ریٹ میں ردوبدل ہوتی ہے، پچھلے ہفتے بجلی کی قیمت میں 7 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا، 2019 کے بعد حکومت نے بجلی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھنے نہیں دی، ماضی کی حکومت نے اپنے سیاسی نقصان سے بچنے کے لیے بجلی کی قیمت نہیں بڑھائی، بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافہ تین سے چار سال بعد ہوا ہے، بجلی کی فی یونٹ قیمت ہر سال آہستہ آہستہ بڑھنی چاہیے تھی۔

یاد رہے کہ چند روز قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ بجلی صارفین سے حکومت 7 مختلف قسم کے ٹیکسز کی مد میں رقم وصول کر رہی ہے۔

دوسری جانب سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے وزیر توانائی اویس لغاری کو خط لکھ کر آئی پی پیز کا ڈیٹا شئیر کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

گوہر اعجاز نے موجودہ وزیر توانائی سے مطالبہ کیا کہ جن باتوں کو بے خبری قرار دیا جارہا ہے وہ حقیقت ہیں، 48 فیصد آئی پی پیز 40 بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں جو 50 فیصد کی صلاحیت سے چل رہے ہیں اور اس کی 100 فیصد قیمت وصول کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی اصل قیمت 30 روپے یونٹ کے بجائے 60 روپے ناجائز وصول کی جا رہی ہے۔

اس سے قبل گوہر اعجاز نے کہا تھا اربوں کھربوں کے کیپیسٹی چارجز صرف آئی پی پیز کو نہیں سرکاری بجلی گھروں کو بھی مل رہے ہیں، جس کے جواب میں اویس لغاری کا کہنا تھا آئی پی پیز معاہدوں کو حکومتی گارنٹی ہے جسے منسوخ نہیں کر سکتے، حکومت آڈٹ کرکے معاہدوں کا جائزہ لے رہی ہے جس آئی پی پیز سے فائدہ نہیں اسے خیر باد کہہ دیں گے۔